مفتی عبد اللطیف جلالی اسلاف کی جیتی جاگتی تصویر

مفتی عبد اللطیف جلالی اسلاف کی جیتی جاگتی تصویر 
__________________________
از : نازش مدنی مرادآبادی
خادم التدریس:جامعۃ المدینہ، ہبلی کرناٹک ہند
__________________________
نگہ بلند سخن دل نواز جاں پر سوز 
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے 

حضور حافظ الحدیث، جنید زماں، سلطان المحدثین استاذ العلماء *حضرت علامہ الشاہ سید جلال الدین شاہ قادری نقش بندی مجددی قدس سرہ العزیز* کے ارشد تلامذہ میں ایک روشن و چمکتا نام برکۃ العصر، بقیۃ السلف، عمدۃ الخلف، مرشد دوراں، غزالی زماں، سند المدرسین، استاذ العلماء والمفتیین، رئیس التدریس والافتاء، شیخ الحدیث و التفسیر حضرت علامہ الشاہ مفتی عبد اللطیف جلالی علیہ الرحمۃ والرضوان کا ہے۔ آپ علیہ الرحمہ حضور حافظ الحدیث ،جلال الملت والدین حضرت علامہ شاہ جلال الدین صاحب  قادری نقش بندی اور بحر العلوم ،استاذ الافاضل حضرت علامہ نواز کیلانی علیہما الرحمہ کے تلمیذ رشید تھے۔آپ کے کردار وعمل سے اسلاف و اکابر کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔ آپ علوم وفنون کے ماہر اور کثیر التلامذہ معلم واستاد تھے۔ عظیم محدث، بہترین فقیہ اور راسخ العقیدہ  روحانی پیشوا تھے۔ آپ کی حیاتِ مبارکہ کا ہر گوشہ روشن وتاب ناک تھا۔ عشق رسول، خوف خدا،حسن کردار، صبر وتحمل، عفو و درگزر، تواضع انکساری، شیریں کلامی  اصاغر نوازی اور  غریب پروری جیسے اوصاف و کمالات  آپ کی طبیعت کا حصہ تھے۔ ذیل میں آپ کی حیات طیبہ کے کچھ روشن پہلوؤں پر قدرے روشنی ڈالی جاتی ہے۔

تدریس سے قلبی لگاؤ:

          آپ کو تدریس سے قلبی اور عشق کی حد تک لگاؤ تھا اور کیوں نہ ہو اصل علم کی بقا  شعبہ تدریسی سے وابستگی میں ہی ہے۔ آپ کی تدریسی خدمات کے حوالہ سے آپ کے تلمیذ رشید حضرت علامہ خواجہ محمد حنیف جلال پوری اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں :
فراغت کے بعد شادباغ/لاہور کو آپ نے اپنا مستقل مسکن و مستقر بنایا جہاں آپ ایک مسجد میں امامت و خطابت فرماتےتھے۔جامعہ نعیمیہ،لاہور میں عرصہ دراز تک تدریس فرمائی پھر جامعہ اسلامیہ منھاج القرآن چلے گئے۔لیکن جلد ہی وہاں کے قوانین جن میں قراقلی کیپ کا دوران ڈیوٹی زیب سر کرنا بھی شامل تھا سے اختلاف کرکے واپس آگئے۔جامعہ نعیمیہ سے سبکدوشی کے بعد آپ علیہ الرحمہ اپنے بڑے استاد بحر العلوم حضرت علامہ مولانا مُحَمَّد  نواز کیلانی علیہ الرحمہ کے یادگار جامعہ باب العلم،گوجرانوالہ، پنجاب میں شیخ الحدیث کے منصب جلیلہ پہ فائز رہے۔
          یوں تو آپ جامع معقول و منقول ہونے کے ناطے سبھی علوم و فنون کی تدریس پر یکساں عبور رکھتے تھے لیکن فن نحو میں آپ کی دلچسپی غیر معمولی نوعیت کی تھی،آپ کی زبان مبارک پر اکثر قانونچہ ،نحومیر،کافیہ اور خاص کر ملا نورالدین عبدالرحمٰن جامی علیہ الرحمہ کی شرح جامی کا تذکرہ ہوتا تھا۔کچھ دنوں قبل کئی سالوں بعد مجھے نیاز مندانہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو تحدیث نعمت کے طور پر فرمایا کہ : میں نے اپنے بیٹے کو بالاستیعاب شرح جامی سبقاً سبقاً پڑھا دی ھے۔

دینی کتب کا ادب واحترام:
  
ع۔  ادب پہلا قرینہ ہے محبت ہے قرینوں میں۔
شخصیت کے نکھار میں ادب ایسا اہم بنیادی عنصر ہے جس کا پاس ولحاظ کرکے بہت سے لوگ سرخرو بھی ہوئے۔ اور اس کو چھوڑ کربہت سے گمراہیت کی دلدل میں بھی جا گرے۔ اس لیے کہا گیا۔
ع۔ با ادب بانصیب بے ادب بدنصیب۔
جو سرخرو ہوئے ان کے کردار وعمل کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے اپنے اساتذہ ،دینی کتب اور اپنے بزرگوں کا ادب واحترام لازماً کیا تھا۔ اسی کا صلہ کہ آج وہ سرخرو اور کامیاب ہوئے۔ حضور مفتی عبد اللطیف جلالی علیہ الرحمہ کے کردار میں بھی یہ چیز بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔
جیسا کہ آپ کے شاگرد رشید اور میرے قریبی دوست حضرت مولانا نصیر احمد نورانی زید مجدہ بیان کرتے ہیں :
آپ کے پاس ہم نے جلالین شریف کا سبق پڑھا آپ کتب کا اتنا احترام فرماتے کہ صفحہ بھی آرام سے پلٹتے اور اپنے طلبہ کو بھی اس کی تلقین فرماتے۔

خوف خدا وعشق مصطفیٰ:

           خشیت ربانی اور عشق مصطفائی اللہ جل وعلا کی جانب سے ایک عالم دین پر  خصوصی عنایت ہوتی ہیں۔ مفتی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کو بھی اللہ جل وعلا نے ان دونوں انعامات واکرامات سے بہرہ ور فرمایا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ خوف خدا اور عشق مصطفیٰ کا ہمہ وقت آپ پر غلبہ رہتا ،بات بات پر آنکھوں سے آنسوں جاری ہو جاتے۔ تلامذہ کو ہمیشہ تلقین فرماتے کہ :متوجہ الی اللہ رہو اور نبی کریمﷺ کے عاشق صادق بنو۔ عشق رسول کا ایک تقاضا یہ بھی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کیا جائے۔اس تناظر میں اگر آپ کی شخصیت کو دیکھا جائے تو سنت پر عمل کرنے کے سلسلہ میں بھی آپ کامل و اکمل نظر آتے ہیں مثال کے طور نبی اکرم صلی اللہ علیہ کی سنت مبارکہ ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سفید لباس پسند فرماتے، تو دیکھا گیا کہ حضرت مفتی عبدالطیف جلالی علیہ الرحمہ بھی اس سنت پر عمل کرتے ہوئے ہمیشہ سفید لباس ہی زیب فرماتے۔

عاجزی وسادگی:

          آپ علیہ الرحمہ انتہائی سادہ طبیعت کے حامل تھے۔ کسی قسم کا کوئی کر وفر آپ کے کردار وعمل میں نظر نہیں آتا۔ عجز وانکساری کے بابت آپ کے ایک شاگرد رشیدلکھتے ہیں: 
آپ علیہ الرحمہ کا روزانہ کا معمول تھا کہ شادباغ سے  جامعہ نعیمیہ تک روزانہ رکشے سے آتے اور جاتے تھے۔میرا نہیں خیال کہ ان کے معمولی سے مشاہرہ سے بمشکل ان کا کرایہ بھی پورا ہوتا ہو۔ یقیناً ایسے لوگ آ بروئے دین تھے۔ آپ نے اپنی خدمات جلیلہ کا پورا بدلہ مسجد، مدرسے سے کبھی طلب نہیں کیا، اپنی مشکلات کسی بندے پر بھی کبھی ظاہر ہی نہ کیں بلکہ تا حین حیات اپنے جاننے والوں اور کئی حاجت مند طلبہ کی مالی خدمت فرماتے رہے۔

بد مذہبوں سے نفرت:

         الحب فی اللہ والبغض فی اللہ بزرگوں کا وطیرہ رہا ہے۔ ہمارے اسلاف جس سے محبت کرتے تو رضائے مولیٰ کے لیے اور کسی سے نفرت کرتے تو وہ بھی رب کی خوشنودی کے لیے۔ اور بدمذہوں سے کدورت ونفرت رکھنا تو خود شرعاً مطلوب ومقصود ہے جیسا کہ ایک حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا جس مفہوم ہے  بد مذہب کے ساتھ نہ کھاؤ نہ پیوں نہ ان کے ساتھ اٹھو نہ بیٹھو اور جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت نہ کرو اور جب مر جائے تو اس کے جنازے میں شرکت نہ کرو۔
اس تناظر میں جب ہم حضور قبلہ مفتی عبد الطیف جلالی علیہ الرحمہ کی مبارک زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو آپ علیہ الرحمہ کی حیات مبارکہ کا یہ پہلو بھی انتہائی روشن وتاب ناک نظر آتا ہے۔ جس کا اندازہ درج ذیل واقعہ سے کیا بخوبی کیا جا سکتا ہے۔چنانچہ عزیز گرامی حضرت مولانا نصیر احمد نورانی زید مجدہ رقم طراز ہیں :
ہمارے جامعہ نعیمیہ میں جنازہ بھی آیا کرتے تھے کچھ تو اہل محلہ کے اور کچھ دور سے۔جب جنازہ آتا تو کچھ طلبہ بھی جنازے میں شامل ہو جاتے۔
ایک مرتبہ ہم استاذ صاحب کے پاس پڑھ رہے تھے ایک جنازہ آیا آپ نے فرمایا میں تو جنازہ نہیں پڑھوں گا پتا نہیں کوئی رافضی خارجی ہو۔ یہ کہہ کر آپ دار الافتاء میں تشریف لے گئے۔
ہم جنازہ کے لئے کھڑے ہوئے تو مطالبہ ان کا سامنے آیا کہ ہمارا بندہ ہی پڑھائے گا۔ پتا چلا کہ وہ واقعی رافضی کا جنازہ تھا۔ تمام طلبہ پیچھے ہٹ گئے۔۔اسے  استاذی المکرم کی کرامت کہیے یا فراست باطنی۔ بہر حال آپ نے اس اس رافضی کا جنازہ نہیں پڑھا۔
دعا ہے اللہ جل وعلا مفتی صاحب قبلہ کے فیضان کو عام وتام فرمائے اور قبر اطہر پر نور کی بارشیں نازل فرمائے۔
آمین بجاہ خاتم المعصومین۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کتابیں ہیں چمن اپنا

مطالعہ: روح کی غذا