اشاعتیں

مضامین لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

پیڑ پودے لگائیں اور آکسیجن فراہم کریں

تصویر
پیڑ پودے لگائیں اور آکسیجن فراہم کریں از قلم: مولانا طفیل احمد مصباحی سابق نائب ایڈیٹر ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور موبائل نمبر: 8416960925 آج پوری دنیا " کورونا " جیسی موذی وبا میں مبتلا ہے ۔ اس وبا سے اب تک ہزاروں افراد مر چکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ بیمار ہیں اور کورونا کی مار جھیل رہے ہیں ۔ اللہ کی پناہ !!! ہاسپیٹل اور شفا خانوں میں بیڈ نہیں مل رہے ہیں اور اگر بیڈ دستیاب ہیں تو     آکسیجن کی قلت ہے ۔ سعودی عرب سمیت دنیا کے دوسرے ممالک ہندوستان کو       آکسیجن ڈونیٹ کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کیئر فنڈ سے 550     آکسیجن فلانٹ تیار کیے جانے کی بات چل رہی ہے ۔ جب عذاب سر پر مسلط ہو جاتا ہے ، تب ہم اس سے نجات کے راستے ڈھونڈنے لگتے ہیں۔   آبادی اور رقبہ کے لحاظ سے چین کے بعد ہندوستان دنیا کا غالباً سب سے بڑا ملک ہے ، اس کے پاس قدرتی ذخائر اور   آکسیجن پیدا کرنے والے ذرائع کی کمی نہیں ہے ۔ لیکن افسوس !     آج ہمارا ملک     آکسیجن کی قلت کا سامنا کر رہا ہے ۔ بروقت آکسیجن نہ ملنے کے

امام مقتدیوں کی عدالت میں

تصویر
امام مقتدیوں کی عدالت میں از قلم: جمال احمد مصباحی ہم نے اماموں اور علماء کو ان کی پوری اجرتیں اور تنخواہیں نہ دی۔ ہم نے ان کی اجرتیں انہیں وقت پر نہ دیں۔ ہم نے ان سے پانچ ملازموں کا کام لیا اور اجرت اتنی بھی نہ دی جتنی ایک ملازم کی بنتی ہے۔ بلکہ ہم نے انہیں ایک ملازم کی تنخواہ کا بھی پانچواں حصہ دیا۔باقی چار حصے ہم نے لاپتہ کردیے۔نہ ان چار حصوں کا ہم نے کبھی کسی کوحساب دیانہ اس کے بارے میں ہم نے کبھی کسی کو بتایا۔اور حق تو یہ ہے کہ پانچواں حصہ بھی پورا نہ دیا. خیر یہ بھی اس وقت کی بات ہے جب ایک حافظ قرآن یا عالم دین کسی مسجد میں امامت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔دراصل کسی مسجد میں امامت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجانا یہی اپنے آپ میں ایک بڑا امتحان ہے۔ہر گاؤں ، شہر یا بستی میں یاہر ایک مسجد سے جڑے ہوئے مقتدیوں میں لوگوں کے کئی گروپ ہوتے ہیں۔ اور ان میں سے ہر گروپ الگ الگ مزاج کا حامل ہوتا ہے۔ایک امام کو اگر کسی مسجد میں امامت حاصل کرنے میں کامیاب ہونا ہےتو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسی ذات اور صفات کا ما

میں کوئی روبوٹ ہوں

تصویر
میں کوئی روبوٹ ہوں؟ از قلم: افضال احمد ابھی تک یہیں ہو، سنا نہیں، کتنی بار کہوں تم سے، کتنی بار سمجھاؤں؟ راحل میں تم کو سمجھا سمجھا کر عاجز آ گیا ہوں۔ تم نے ساری حدوں کو پار کردیا ہے۔ تم بالکل بیوقوف انسان ہو۔ تھوڑا تو دماغ استعمال کیا کرو۔ اگر کوئی آدمی کوئی بات سمجھا رہا ہے تو اس کو غور سے سننا چاہیے، سمجھنا چاہیے، اور اس پر عمل کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن تم ہو کہ نہ سننا ہے، نہ سمجھنا، نہ غور دینا ہے۔ تمھارے تو کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ دوسرے تو بیوقوف ہیں نا جو تم کو سمجھاتے ہیں۔ کسی کی بات کی تو لاج رکھنی چاہیے۔ کچھ تو خیال کرنا چاہیے۔ راحل یہ تمھارے لیے لاسٹ وارننگ ہے اگر تم نے آئندہ بے توجہی اور نظر اندازی سے کام لیا، جو کہا گیا اس کو کرنے سے من چرایا تو تمھارے لیے مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔  سمجھے؟ بیوقوف، جاھل انسان۔ راحل تم مسکرا رہے ہو۔ تم کو تمھارے ابو نے اتنی باتیں سنائی اور تم ہو کہ ابھی بھی ہنس رہے ہو. راحل جب گھر سے باہر نکلا تو دانش نے اس سے مخاطب ہو کر کہا۔ راحل نے تنقیدانہ مسکراتے ہوئے کہا: ارے یار اس میں ٹینشن لینے کی کیا بات ہے۔ یہ کونسی نئی چیز

عالیہ کی شادی

تصویر
از قلم: سرفراز احمد عطاری مصباحی خالد صاحب بڑے اچھے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور دین سے بڑی دل چسپی بھی۔ خاص طور پر حدیث کا ان کا بہت شوق ہے، بلکہ ان کو ہر بات پر حدیث ہی چاہیے ہوتی ہے،  ان کے دو بیٹے محمود و فرید اور ایک بیٹی عالیہ ہے۔ تعلیم و تعلم سے وابستہ بھی ہیں۔ کبھی کبھار والد صاحب سے مسائل پر بحث ومباحثہ بھی کرلیتے ہیں، یہ خاندان بڑے ہی سکون اور خوشی سے زندگی گزار رہا تھا۔  اچانک خالد صاحب کی اہلیہ سائرہ بیمار ہوجاتی ہیں، اور حالت کچھ زیادہ ہی سیریس ہوجاتی ہے،  خالد صاحب: سائرہ ! چلو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں، آپ کی طبیعت زیادہ ہی سیریس ہوچکی ہے، ذاکر بھائی بڑے اچھے ڈاکٹر ہیں ان سے مریض بڑی جلدی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ سائرہ: مجھے نہیں جانا کسی ڈاکٹر کے پاس۔ مجھے اللہ سے شفا لینی ہے۔ خالد صاحب: ڈاکٹر کے پاس تو جانا پڑے گا، وہی تو دوائی دے گا۔ سائرہ: دوائی دے گا تو کیا ہوا شفا تو اللہ ہی دے گا۔ آپ ہی نے تو ایک بار بتایا تھا کہ اللہ کے علاوہ کسی سے مدد نہیں مانگنا چاییے، پھر ہم ڈاکٹر سے مدد کیوں لیں، کیا  اللہ کسی ڈاکٹر کا محتاج ہے۔ مجھے نہیں جانا ۔ یہ شرک ہوج

تصوف اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی زندگی میں

تصویر
از قلم: نیاز احمد عطاری         اس موضوع پر گفتگو کرنے سے قبل تصوف کی تعریف جان لینا ضروری ہے۔ اور اس بارے میں خود اعلی حضرت اپنی ہی تصنیف”مقال عرفا باعزاز شرع و علما“ میں لکھتے ہیں: سیدی عبد اللہ محمد بن خفیف ضبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: التصوف تصفية القلوب و إتباع النبي ﷺ في الشريعة۔۔۔ ”تصوف اس کا نام ہے کہ دل صاف کیا جائے اور شریعت میں نبی ﷺ کی پیروی ہو“۔ (امام احمد رضا اور تصوف، ص:١٥) اب ہم تصوف کی تعریف کو زیرِ نظر رکھتے ہوئے اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی زندگی پر غور کریں تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ آپ نے پوری زندگی شریعت پر سختی سے عمل کیا، ہر فرض و واجب کی محافظت اور اتباع سنت و شریعت میں کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا؛ جس کے نتیجے میں آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا قلبِ مبارک ایسا پاکیزہ و مصفّٰی ہو چکا تھا کہ نورِ معرفت کی چمک اوائلِ زندگی میں ہی نظر آنے لگی۔ حضرت مولانا سید شاہ آل رسول مارہروی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ان اربابِ سلوک اور مرشدینِ کرام  میں سے تھے جو اپنے مریدین کو ریاضت و مجاہدہ کی سخت منزلوں سے گز

عربی زبان میں مہارت کے آٹھ پوائنٹس

تصویر
از قلم: عطاء المصطفی مصباحی خادم التدریس: جامعۃ المدینہ، فیضان مفتیٔ اعظم ہند، شاہجہان پور، ہند (1)۔ابتدائی مرحلہ میں طلباء عربی زبان کے الفاظ(مفردات) کا ایک خاطر خواہ ذخیرہ یاد کریں۔یہ ہدف آسانی سے ایسے حاصل کر سکتے ہیں کہ آپ ہر سال ایک ہزار الفاظ یعنی روانہ تین نئے عربی الفاظ یاد کریں۔ (2)۔درسی و غیر درسی جو بھی کتاب آپ پڑھیں ان سے اچھے اچھے جملے اور عمدہ تعبیرات اخذ کرکے اپنی کاپی پر یکجا کریں۔۔۔ (3)۔عربی زبان کے شہ پارے باقاعدہ سمجھ کر یاد کریں۔ (4)۔قرآن کریم کے آخری تین پارے مع حل لغات اور فہم آیات کے ساتھ حفظ کریں۔ (5)۔کلام نبوت میں سے دس خطبے۔ (6)۔نامور خطبائے عرب کی چند مشہور تقریریں اپنی کاپی میں نقل کریں اور ان میں سے بعض نمونہ یاد کریں۔ (7)۔تقریبا دو سو مشہور ترین نعت نبوی پر مشتمل عربی اشعار یاد کریں اور انہیں دہراتے رہیں۔ (8)۔درسی کتابوں کے مالہ وماعلیہ سمجھنے کی جہاں کوشش ہو وہیں یہ کوشش بھی ہونی چاہیےکہ آپ ان کی عبارت خوانی بآواز بلند، مخارج کی صحت اور اعراب کی درستگی کے ساتھ بار بار کریں۔۔۔ جاری۔۔۔۔۔ جب ‏نحو ‏آپ ‏کو ‏الجھادے ‏(کتاب)

انڈے کی کریٹ اور حامد

تصویر
از قلم : سرفراز احمد عطاری مصباحی حامد اور محمود بہت اچھے بچے ہیں اور سچے دوست بھی ، ان کا اسکول آنا جانا ہمیشہ ایک ساتھ ہی ہوتا ہے ، یہاں تک کہ پڑھنا لکھنا بھی ، سونے پر سہاگہ یہ کہ دونوں محنتی اور باادب اور اخلاق مند ہیں ، اسی وجہ سے اسکول کے تمام اساتذہ کو محبوب اور ہر طالب علم کے عزیز بھی۔ ہرکام وقت پر اور سلیقہ سے کرنا ان کے اندر خاص بات ہے،  روزمرہ کے معمولات کے ساتھ زندگی کا گزر بسر جاری تھا اچانک حامد کے والد جامی خان کی طبیعت خراب ہوگئی حتی کہ ان کو اسپتال میں ایڈمٹ ہونا پڑا، کافی دن بستر علالت پر گزر گئے ، نتیجہ یہ ہوا کہ اخراجات کے مسائل ہوگئے، حامد سے دیکھا نہ جاتا مگر والد صاحب کی مسلسل علالت اس کی پڑھائی میں رکاوٹ نہ بنی، لیکن جب دوائی وغیرہ کی وجہ سے اخراجات مزید بڑھ گئے تو اب حامد نے پڑھائی کے ساتھ کچھ کام کرنے کا فیصلہ کیا، یہ اس کے لیے ایک غیر معمولی اقدام تھا، جس کے بارے میں اس نے اس سے پہلے کبھی سوچا بھی نہ تھا، طریقہ اس نے یہ اپنایا کہ تھوک کی دکان سے انڈے کی کیریٹ خریدتا اور فٹکر دکان داروں کو بیچ دیتا ، یوں اس نے پڑھائی بھی

ایکسیڈینٹ ہوگیا

تصویر
از قلم: افضال احمد زاہد کی سائیکل کو آئے ہوئےآج سات دن ہو چکے ہیں۔ جب سے اس کی سائیکل آئی ہے وہ اتنا خوش ہے کہ اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں۔  امی اس کو جو کہتی ہیں وہ اس کو فوراً کر نے کو دوڑتا ہے۔ کہیں باہر جانا ہو، کوئی سبزی لانی ہو یا کسی کی دوائی لانی ہو،  یا مارکیٹ سے کوئی سامان لا کر دینا ہو۔  بس ادھر امی پکارتی ہیں زاہد  بیٹا! زاہد بیٹا! ابھی امی کے جملے مکمل نہیں ہوتے ہیں ادھر زاہد فوراً سے پہلے سائکل نکالتا ہے اور جانے کے لئے ریڈی ہوجاتا ہے۔  ایسا لگتا ہے جیسے زاہد کے اندر جنون آگیا ہو۔  کچھ اس طرح کا بھی لگنے  لگا ہے جیسے کوئی اس کے اندر بیٹھا ہو اور وہ اس کو اندر سے کمانڈ دیتا ہو۔ کبھی کبھی تو اس کے جنون کی وجہ سے بے چارے کی مذاق بھی بن جاتی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب بھی اس کو پکارا جاتا ہے، وہ فورا سائیکل کی طرف لپکتا ہے۔  اگرچہ اس کو باہر جانے کا نہ کہا گیا ہو۔ اس کی چھوٹی بہن منھل ناز تو اس کو "سائیکل" ہی کہنے لگی ہے۔  اس کو چڑاتی ہے "سائیکل سائیکل"۔  دوسری طرف کچھ دن پہلے اس کی حالت یہ تھی کہ وہ کسی کی کوئی بات سنتا ہی نہیں تھا۔ نہ اس کو امی ک